04-Oct-2022 گمنامی
عنوان : گمنامی
ازقلم : مریم عباس
چھٹی ٹائم کالج سے نکلتے اس نے نظر اُٹھا کر پھر اسے دیکھا. کالے رنگ کے جگہ جگہ سے پیوند لگے کپڑوں میں وہ زمین پر بیٹھا ہاتھ میں تسبیح کے دانے گردانتا ادھر ادھر دیکھ رہا تھا. ادھر ادھر دیکھتے کسی کی نظروں کو اپنی طرف محسوس کرکے اس نے لڑکی کی طرف دیکھا. بڑی بڑی آنکھیں، تیکھے نین نقوش،سپید رنگت، چھوٹی ناک ، گرمی کی حدت سے سرخ ہوتے گال، سر پر حجاب لئیے وہ لڑکی یک ٹک اسے ہی دیکھ رہی تھی.
"آہ..." چھٹی ٹائم بھیڑ ہونے کی وجہ سے اسے دھکا لگا تو وہ گِرتے گِرتے بچی.
"سوری" لڑکی نے معذرت کی تو وہ سر اثبات میں ہلاتی گردن موڑ کر دوبارہ اس طرف دیکھنے لگی لیکن اب وہ وہاں نہیں تھا. میشی نے ادھر ادھر نظر گھماتے اسے ڈھونڈنا چاہ پر وہ نہیں ملا.
"اتنی جلدی کہا جاسکتا ہے" اسنے سوچتے گھر کی طرف قدم بڑھائے.
میشی سائیکالوجی کی سٹوڈنٹ تھی. کالج کے پاس ہی سڑک پر اس کا گھر تھا تبھی وہ کالج سے پیدل گھر چلے جاتی کچھ دنوں سے اس بےڈھنگ عجیب شخص کو کالج کے باہر بیٹھا دیکھ وہ حیران تھی کیونکہ اسے اس کی شخصیت میں وہ روپ نہیں محسوس ہوا جو وہ تھا یا شاید وہ اس کے بارے میں زیادہ ہی سوچنے لگی تھی.
...............................
"ناظرین جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں ملک میں دہشت گردی کے واقعات پھیل رہے ہیں اور سننے میں آیا ہے دہشت گردوں کا اگلا نشانہ سکول، کالجز کے بچے ہیں دہشت گردی کی روک تھام کے لئے اور طالب علم جو ملک کا سرمایہ ہوتے ہیں ان کی حفاظت کے لیے
حکومت نے ایک ہفتے کی تعطیلات کا اعلان کردیا اور تفصیلات کے لیے دیکھتے رہے سماء نیوز" شام کے وقت ٹی وی پر چلتی ہیڈ لائنز ُسن کر اسے وہ مشکوک شخص یاد آیا اور خوف سے اس کے ہاتھوں کے بال کھڑے ہوگئے.
" اللہ ہی رحم کرے ہمارے ملک پر اور تمام بچوں کی حفاظت فرمائے " میشی کی ساتھ بیٹھی سبزی چھلتی زرینہ ملک نے نیوز سُنتے زیر لب دعا مانگی.
" امی کل کالج پھر آپ میرے ساتھ چلے گی. نوٹس لے آؤ گی ان چھٹیوں میں پیپرز کی تیاری کرلوں گی" میشی نے ڈر پر قابو پاتے ماں کو مخاطب کیا لیکن اسنے دل میں ارادہ کیا تھا کہ وہ کالج جاکر اس مشکوک شخص کے بارے میں پرنسپل کو بتائے گی.
"اچھا" زرینہ ملک اٹھتی کچن کی طرف چلے گئ اور میشی کی سوچے بھٹکتی پھر اس شخص پر چلے گئ.
اگلے دن کالج کے پرنسپل آفس کی طرف جاتے اسے سامنے کلاس کی طرف اس شخص کی جھلک دکھائی دی تو وہ ماں کو وہی چھوڑ کرفرینڈ کو دیکھنے کا بہانہ کرتی اُس طرف آئی یہ سوچ کر کے وہ دور سے دیکھے گی کہ آیا وہ وہی عجیب و غریب شخص ہے. لیکن وہ تجسس کے ہاتھوں کلاس میں داخل ہوگئی کلاس کی بیک سائڈ والی کھڑکی کھلی تھی شاید وہ شخص وہی سے اندر آیا تھا اور دیوار پر ہاتھ لگا کر کسی چیز کا معائنہ کررہا تھا کہ قدموں کی آہٹ پر اسنے تیوری چڑھائی اور شعلہ برساتی آنکھوں سے اس نے میشی کو دیکھا کیونکہ یہ لڑکی اُس کے کام میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کررہی تھی.
"ت...م..تم دہشت گرد ہو" میشی نے ڈرتے پوچھا اس بچگانہ سوال پر اس کا دل قہقہہ لگانے کو کیا لیکن وہ ضبط کرگیا
"جی سَر یہاں سب کلئیر ہے..... اوکے سر" کان پر لگی بلیو توتھ کے ذریعے کسی سے بات کرنے کے بعد اس نے اس حجاب میں کھڑی معصوم لیکن ذہین لڑکی کو ایک نظر سر تا پیر دیکھا اور بنا کچھ کہے جانے کے لئے کھڑکی کی طرف بڑھا کہ اچانک پلٹتا اسے مشورے سے نوازا.
"تم سائیکالوجسٹ کے علاوہ ایک اچھی Spy بن کر اپنے ملک کے کام بھی آسکتی ہوں" وہ اس کی گہرائی تک معائنہ اور غوروتجسس کی عادت کو دیکھتا کہتا چلا گیا.
"ہیں اس کو کیسے پتہ میں سائیکالوجسٹ بن رہی ہوں اور اسنے مجھے کچھ کہا بھی نہیں الٹا مشورہ دے کر چلا گیا یہ کیسا دہشت گرد تھا" پیچھے وہ حیران سوچتی رہ گئ اور بنا پرنسپل کو بتائے غائب دماغی سے چپ چاپ نوٹس لے کر گھر آگئ.
"وہ ایک جاسوس تھا یا دہشت گرد " اتنی سوچ بچار کے باوجود وہ سمجھ نہیں پارہی تھی.
کچھ دنوں بعد حالات کے ٹھیک ہوتے وہ کالج جانے لگ گئ لیکن اب اسے وہ شخص وہاں موجود نہ ملتا.
..........................
فٹ پاتھ پر ایک غریب بچے کو کھانا دیتے نوجوان کو دیکھتی میشی اس کے پاس آگئ جب اس نوجوان نے میشی کی طرف نظر اُٹھا کر دیکھا تو میشی اس کی آنکھوں میں دیکھتی بول اُٹھی.
" تم وہی ہو....لیکن دہشت گرد نہیں ہو تم"
آخر میشی نے مسٹری سولو کر ہی لی تھی.
"آپ کون اور کیا کہہ رہی ہے" وہ ماتھے پر بَل ڈالے بنا رُکے چلنے لگا وہ بھی ساتھ ساتھ چلنے لگی.
"دیکھے آپ مجھے پہچان گئے ہیں میں جانتی ہوں اب راستے میں اس جاب کو ڈسکس کرنا خطرے سے خالی نہیں بس آپ مجھے کوڈ ورڈ میں اس جاب کے متعلق بتا دیجئے"
"مس مجھے نہیں پتہ آپ کس بارے میں بات کررہی ہے لیکن گوگل آپ کو ہر انفارمیشن دیں دے گا " وہ اس کی ذہانت سے متاثر تو ہوا تھا لیکن احتیاط برتتا تیز تیز قدم اُٹھانے لگا اُسے جاتا دیکھ وہ منہ بسور گئ.
ٹرن لیتے اس گمنام شخص نے تِرچھی نظر سے میشی کی طرف دیکھا اور مُسکرا دیا.
....................
" بابا آرمی کے جو سپاہی ہوتے ہیں انہیں دنیا میں بھی، آخرت میں بھی اتنی شہرت ملتی ہے انہیں سرہایا جاتا ہے پر آرمی کے جو Spy ہے انہیں دنیا میں کوئی پہنچاتا بھی نہیں ہے وہ گمنامی کی زندگی بسر کرتے ہیں یہ تو ناانصافی نہیں؟"
"بیٹے اللہ کسی کے ساتھ نا انصافی نہیں ہونے دیتا وہ جو دنیا میں اپنے ملک کی حفاظت کی خاطر گمنامی کی زندگی گزارتے ہیں اور اللہ کی خاطر بنا معاوضہ کے کام کرتے ہیں وہ اللہ کے ہاں زیادہ معتبر ہوتے ہیں... قرآن میں جنت کے مختلف درجے بتائے گے ہیں اور سب کو ان کے اعمال کے مطابق درجہ ملے گا اللہ کے ہاں ان سپائی آرمی کا زیادہ اونچا اعلیٰ درجہ مقرر ہے "
بابا کی بات سُنتے اس کی آنکھوں میں چمک دوڑی اور وہ مسکرا کر بول اُٹھی.
" بابا مجھے بھی اپنے ملک کی خدمت کرنی ہے میں بھی اس فیلڈ میں جاؤگی" اس کے بابا مسکرا اُٹھے.
Simran Bhagat
05-Oct-2022 09:20 PM
لاجواب بے حد خوبصورت لکھا ہے آپ نے سچ میں کمال کر دیا بہت اچھا
Reply
Muskan Malik
05-Oct-2022 08:45 PM
واہ واااااااااا واہ کیا بات ہے بہت خوبصورت لکھا ہے
Reply
नंदिता राय
04-Oct-2022 10:43 PM
👏👌🙏🏻
Reply